Aisay Tou Inqlaab Nahi Aye Ga - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Aisay Tou Inqlaab Nahi Aye Ga - Insaf Blog

 

نواز شریف اور فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دس میں سے نو جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے جائیں۔ پی ڈی ایم میں صرف دو بڑی جماعتیں ہیں، پیپلز پارٹی اور نون لیگ۔ جس میں سے نون لیگ استعفے دینے پر تیار ہے جبکہ پیپلز پارٹی انکاری ہے۔ باقی آٹھ جماعتیں صرف نام کی ہی پارٹیاں ہیں۔ ان کی کل ملا کر بھی آٹھ سیٹیں نہیں بنتی۔ 

آصف زرداری کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ لازمی وہ بھی اقتدار کا حصہ رہے  بلکہ وہ اپنی پارٹی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی سندھ پر حکومت ہے تو آصف زرداری کا کیا دماغ خراب ہے کہ وہ نواز شریف اور فضل الرحمٰن کے کہنے پر ایک صوبے کی حکومت چھوڑ دے۔ جبکہ دوسری طرف نواز شریف صرف خود کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر چاروں صوبوں اور وفاق میں نون لیگ کی حکومت ہو، اسپیکر قومی اسمبلی، چیرمین سینٹ، اور صدر مملکت بھی نون لیگ کا ہو لیکن نواز شریف خود اقتدار میں نا ہو تو اسے اس نظام سے، پارلیمنٹ سے، حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ اس کا مدعا یہی ہوگا کہ کسی طرح وہ خود اقتدار میں آجائے چاہے اس کی پارٹی بھی نا رہے۔ مجھے کیوں نکالا اس کی ایک بڑی مثال ہے جبکہ اس وقت وفاق اور سب سے بڑے صوبے پر نون لیگ ہی کی حکومت تھی۔

بات کی جائے فضل الرحمٰن کی تو وہ جانتا ہے کہ مدرسہ کے بچوں کو سڑکوں پر لانے کی خاطر نون لیگ و پیپلز پارٹی کو اس کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی و نون لیگ کی نظر میں بھی فضل الرحمٰن کی بس یہی حیثیت ہے کہ وہ مذہب کا نام استعمال کرکے ہجوم اکٹھا کرسکتا ہے۔ فضل الرحمٰن منافقت میں نواز و زرداری سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ اپنے ڈیڑھ پاؤ گوشت کی خاطر پوری بھینس ذبح کروانا چاہتا ہے۔ دہائیوں بعد ایسا ہوا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر ہوا ہے اور اس بات نے اسے نیم پاگل کردیا ہے۔

اس کا اپنا بیٹا اور بھائی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں لیکن وہ ان کے استعفوں سے ابتدا نہیں کرتا۔ جس پارلیمنٹ کو وہ جعلی کہتا ہے اس کا بھائی اور بیٹا اسی پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں۔ وہ اسی جعلی پارلیمنٹ کے ذریعے کبھی سپیکر تو کبھی صدر، کبھی چیرمین سینٹ تو کبھی اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہوکر پارلیمنٹ کو حرام قرار دے دیتا ہے۔ اس کا مدعا بھی اپنی ایک سیٹ اور کوئی عہدہ ہے جس میں کام کوئی نا ہو بس عوام کے پیسے پر عیاشیاں ہوں۔ فضل الرحمٰن کو کسی طرح آج بھی پارلیمنٹ میں پہنچا دیا جائے تو سارا کا سارا نظام “خلال“ ہو جائے گا۔

باقی یہ سب جماعتیں اور ان کے سربراہان ایک دوسرے کے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ تیس سال تک باہم دست و گریباں رہے، ایک دوسرے پر جعلی مقدمات بنوائے، سزائیں دلوائیں، ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کروائیں، ایک دوسرے کے خاندانوں اور خواتین تک کو نہیں چھوڑا۔ غرضیکہ کہ کوئی ایسی غلاظت نہیں ہے جو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے منہ پر نا ملی ہو۔ تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ اب یہ بھائی بھائی بن گئے ہیں؟ یہ اندر سے ایک دوسرے سے اب بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں۔ ہاں کچھ عرصے کے لیے یہ پیٹی بند بھائی ضرور بن گئے ہیں کہ سیاست کے نام پر کرپشن و منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

ہر تحریک کا کوئی نظریہ، کوئی بڑا مقصد ہوتا ہے۔ جس تحریک کا سارا مدعا ہی ابو بچاؤ اور کرپشن بچاؤ ہو اس کا انجام پی ڈی ایم جیسا ہی ہوتا ہے۔