Party Tou Abhi Shuru Hui Hai - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Party Tou Abhi Shuru Hui Hai - Insaf Blog

 

ساری جمع تفریق ملا کر یہ بھی دیکھ لیں کس کو فائدہ نقصان ہوا ہے اور ملکی سیاست میں کیا فرق پڑے گا۔ 
پیپلز پارٹی اگرچہ اس بار توقع سے 2 سیٹ زیادہ جیت گئی ہے مگر پھر بھی اسکی مجموعی سیٹیں کم ہوئی ہیں پہلے دوسرے نمبر پر تھی اب بھی دوسرے پر ہی ہے۔
ن لیگ اس بار توقع سے 3 سیٹیں زیادہ ہار گئی ہے اور اس کی سینٹ سے مجموعی سیٹیں کم ہوگئی ہیں پہلے سینٹ کی اکثریتی پارٹی تھی اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کو 27 سیٹیں ملنے کی امید تھی مگر حکومتی اتحاد 29 سیٹ جیت گیا ہے، پی ٹی آئی اس بار توقع سے 2 سیٹ زیادہ جیتی ہے پہلے سینٹ میں تیسرے نمبر پر تھی اب اکثریت میں آ گئی ہے۔ اس الیکشن کے بعد پی ٹی آئی پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئی اور برتری حاصل کرلی ہے جبکہ ن لیگ، فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کو بری طرح ناکامی اور شکست ہوئی ہے۔
وفاق میں گیلانی والی ایک سیٹ پر اپوزیشن جشن اور انصافین شور مچا رہے ہیں جبکہ یہاں پی پی نے پی ٹی آئی کو اور پی ٹی آئی نے ن کو ہرایا ہے تو نقصان ن کا ہوا ہے جو وفاق کے علاوہ کےپی سے بھی ہار گئی ہے۔ گیلانی کی ایک سیٹ صرف ایک عدد ہے اس کے مقابلے میں کےپی سے پی ٹی آئی نے 2 زائد نشست جیتی ہیں۔ اس ایک سیٹ کی جیت پر اپوزیشن کے بڑے بڑے دعوی پانی کے بلبلے ہیں جو ایک ہوا سے اڑ جائیں گے۔ 
اور رہی بات کہ گیلانی کیسے جیتا ہے اس پر شرم دلانا یا شرم کرنا بے معنی ہے کیونکہ سیاست میں اخلاق اور کردار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، نتیجہ سکور اور فائدہ دیکھا جاتا ہے۔ بس یہ ضرور یاد رکھنا ہوگا کہ گیلانی کی جیت پر جو ورکر و سپورٹر خوش ہورہے ہیں ان کے مردہ ضمیر پر افسوس کرنا ہوگا۔ 

اب دو سوال بنتے ہیں کہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ ملے گا یا نہیں اور سینٹ کا چئیرمین کون ہوگا۔ دونوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
سب سے اچھا دفاع حملہ کرنا ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ اپوزیشن بڑھکیں مارتی، عمران خان نے خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا ہے یہ صرف اعلان نہیں بلکہ چیلنج دیا گیا ہے۔ اعتماد کے لیئے 172 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ فوزیہ کو 174 ووٹ ملے ہیں۔ اعتماد کیلئے اسمبلی میں ہاتھ کھڑے کرکے گنے جاتے ہیں لہذا ووٹ ضائع ہونے یا بکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور عمران خان اپنی ممکنہ تعداد سے بھی زیادہ ووٹ لے جائے گا اور یہ وہ اصل پیغام ہے جو اگلے سوا دو سال حکومت چلانے کیلئے اپوزیشن کو دینا بہت ضروری تھا اور حکومت یہ پیغام دینا بھی چاہتی تھی اسی لئے بنا کسی مطالبے کے فوراً خود اعلان کردیا ہے جیسے اسی موقع کے انتظار میں تھی۔ 
اپوزیشن یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ عدم اعتماد میں کامیاب ہو جائیں گے چلیں اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں ہیں فرض کریں اپوزیشن کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اپوزیشن وزیراعظم کیلئے اپنا امیدوار لائے گی جبکہ یہاں بلاول اور شہباز شریف دونوں خواب دیکھ رہے ہیں اور ن و پی پی کی ایسی لڑائی شروع ہوگی کہ بڑا مزہ آئے گا۔ ویسے تو کھیل یہاں تک نہیں جائے گا لیکن فرض کریں، بس فرض ہی کریں، یقین کریں بڑا مزہ آئے گا۔ 
اب دوسری بات کو دیکھتے ہیں چیئرمین سینٹ کون بنے گا ؟ 
تو میں سنجرانی کو ہی دوبارہ دیکھ رہا ہوں، یہ حکومت کا امیدوار ہوگا اور اسے امیدوار بنانے سے اپوزیشن کے بہت سارے ووٹ حکومت کو مل جائیں گے۔ اگر حکومت سنجرانی کے علاوہ کسی اور کو لاتی ہے تو شائد حکومت یہ مقابلہ ہار جائے۔ 
دوسری طرف پی پی لازمی طور پر گیلانی کو اپنا سینٹ چئیرمین لانا چاہے گی اور یہ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار ہوگا مگر یاد رکھیں گیلانی کو چیئرمین منتخب کروانا بہت ہی مشکل ہے۔ 

لہذا اس ساری محنت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے قومی اسمبلی اور سینٹ میں جیسا ہے ویسے ہی رہے گا اور چلتا رہے گا۔ بس فرق یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی اکثریت میں اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ اور فرق یہ پڑا ہے کہ پی ٹی آئی پہلی بار قومی اسمبلی و سینٹ میں اکثریت میں آئی ہے اور بتانا یہ تھا کہ “پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے”۔