یوم پیدائش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ہماری نوجوان نسل | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

یوم پیدائش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ہماری نوجوان نسل 
تحریر : زبیر خان بلوچ 
آج ہم آزاد ملک میں سانسیں لے رہے ہیں ہے ہمارے قومی ہیروز حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ  اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی بدولت ہے، ورنہ انڈیا جیسے ملک میں مسلمانوں کے حالات آپکے سامنے ہیں.وہ قومیں کبھی ترقی نہی کرتی جو اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہیں.یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو اپنے ہیروز سے روشناس کروائیں اور ان کے بارے میں بتائیں.
عاشق رسولﷺ ، قلندرِ دوراں ، فنا فی الرسولﷺ  ،  عندلیبِ باغِ حجاز ، زبانِ عجم، شاعرِ مشرق، حکیم الاُمت ، مصور پاکستان، مفکر ِ اسلام ،دانائے راز،ترجمان خودی، حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ  9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.
برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر نئے ملک کی راہ دکھانے والے شاعر مشرق ، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا آج 144 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے.
ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کرنے کے بعد مشن ہائی سکول سے میٹرک کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا، ایم اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں آپ جرمنی چلے گئے جہاں سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ جیسے اساتذہ نے آپ کی روحانی اور فلسفیانہ تربیت کی ،علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے شاعری کے ساتھ وکالت کی اور ملک کی سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1922 میں حکومت برطانیہ نے آپ کو سر کا خطاب دیا۔
آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے، انہوں نے اپنی شاعری سے برصغیر کی مسلم قوم میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔ 1930 میں علیحدہ وطن کا خواب دیکھا۔قیام پاکستان سے قبل علامہ محمد اقبال کا 21 اپریل 1938 کو انتقال ہو گیا تھا۔ آپ کو لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔
علامہ اقبال نے بانگ درا، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اور بال جبریل جیسی کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ سات فارسی شاعری کے مجموعے اور انگریزی میں لکھی آپ کی کتب دنیا بھر میں علم کے پیاسوں کی تسکین کا باعث ہیں۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اپنے پیغام اور اثر انگیزی کے حوالے سے لاجواب ہے.

پاکستان کی آبادی میں نوجوان 70 فیصد ہیں جو پاکستان کا مستقبل ہیں.پاکستان کے نوجوان مایوسی کا شکار تھے کیونکہ پاکستان میں جتنے بھی لیڈر گزرے صرف پاکستن کو لوٹا اور پیسا باہر لے گۓ ،وزیراعظم عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جو تاریخ  میں اب تک کا سب سے ایماندر اور اچھا لیڈر ملا اور صرف عمران خان پر پوری پاکستان کی نوجوان نسل نظریں لگا کر بیٹھی ہے کہ وہ ملک میں تبیدلی لے آیے گا اور اس کو ترقی کی طرف گامزن کرے گا،جس پر وزیراعظم عمران خان بھی اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ نوجوان نسل اور پاکستان کے لیے کام کر سکیں اور امید ہے کہ وہ اس مشن میں جلد کامیاب ہوں گے اور پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ابھر کر دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گا،ضرورت اس امر کی ہے کے ہر شخص کو اپنا کام بھی ایمانداری سے کرنا ہو گا تبدیلی کسی ایک شخص سے نہی آتی اس کے لیے ہر انسان کو اپنا کام کرنا ہو گا. 
علامہ اقبال کی آرزو تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود داراور غیرت مند ہے دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، اپنا آشیانہ نہیں بناتا خلوت پسند ہے اور تیزنگاہ ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا میں بزرگوں سے ناامید ہو ں آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں ،جوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا اللہ تعالیٰ آسان کر دے تاکہ میرے شعروں کی حکمت اور دانائی ان کے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ انسان کامل بن جائیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا
"تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور"

علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام جاوید نامہ میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تیری ماں نے تجھے لاالہ کا پہلا سبق دیا تھا، تیری کلی اس کی باد نسیم سے کھلی لاالہ کہتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے.مومن اور دوسروں کی غلامی کریں مومن ہو اور غداری نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے.افسوس اس دور کے مسلمان نے معمولی قیمت پر دین و ملت کو بیچ دیا۔ اس نے اپنا گھر بھی جلا دیا اور گھر کا سامان بھی، کبھی اس کی نماز میں لاالہ کا رنگ تھا مگر اب نہیں کبھی اس کی نیازمندی میں ناز تھا مگر اب نہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا تھا۔ آج کل مال کی محبت میں مبتلا ہے، نماز اور روزے کی روح جاتی رہی ہے تو فرد بے لگام ہو گیا ہے اور سینے حرارت قرآن پاک سے خالی ہو گئے، ایسے لوگوں سے بھلائی کی کیا امید ہے.ہمارے نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں ،چہرے چمکدار دماغ روشن مگر اندرون تاریک کم نگاہ ،بے یقین اور مایوس ان کو دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ غصے میں ہو یا خوشنودی میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور افلاس ہو یا امارت میانہ روی کو نہ چھوڑ اور اعتدال پر قائم رہ.جس طرح سے آجکل کی نئی نسل فورانا جذباتی ہو جاتی ہے اور ہر کسی نے فرقے بنا رکھے ہیں اس سے باہر نکلیں اسلام وہ ہے جو میرے نبی حضرت محمدﷺ نے دیا نہ کہ آجکل کے اسلام کا لبادہ اوڑھے مسلمانوں نے دیا اسلام کو جاننا ہے تو قرآن کی تفسیر پڑھیں اور حدیث کا مطالعہ کریں۔