خواتین کے لئے مخصوص نشستیں- ایک بہتر موقع یا شارٹ کٹ | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Reserve-seats-insaf-blog-ahmed-jawad

 

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لئے جنرل مشرف نے خواتین کے لئے مخصوص نشستیں متعارف کروائیں۔اس  کے مقاصد اور اس کی روح کے برعکس اس قانونی شق نے مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والی، مضبوط پشت پناہی کی حامل،عوامی مقبولیت اور دولت مندپس منظر  والی بہت سی خواتین کے لئے دروازے کھول دیئے ہیں۔مختصراً یہ  کہ ان کےلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کا ایک آسان راستہ نکل آیا ہے۔اب بھی یقیناًمخصوص نشستوں پر کچھ ایسی خواتین بھی منتخب ہو کر آتی ہیں جن کا بڑا ہی اعلیٰ خاندانی پس منظر ہوتا ہے اورجو بہت شاندار تعلیم اور تجربہ کی حامل ہوتی ہیں مگر ان کی موجودگی کی شرح بہت محدود ہوتی ہے۔

مشرف دور میں ایک دفعہ عمران خان نےقومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے نظام کے بارے اظہار خیال کیا تھا مگران کے بیان پر اُس وقت کشمالہ طارق جیسی مخصوص نشستوں پر براجمان خواتین نے بہت واویلا مچایا۔عمران خان نے بھی ان ہی خیالات کا اظہار کیا تھا جن کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔

اگلے سینیٹ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے تک آئین میں کوئی ترمیم کرنا پی ٹی آئی کے لئے بہت مشکل ہوگا۔کسی آئینی ترمیم کے بغیر پی ٹی آئی کے لئےآسان ہوگا کہ خواتین کے لیے  درجہ بندیاں بنائی جائیں جن پر  آئندہ انتخابات سے  بہت پہلے  پارٹی انتخابات میں ان کا انتخاب کیاجائے۔ اس طریقے سے ایک سیاسی پارٹی مخصوص نشستوں کے لئے خواتین کا انتخاب با آسانی  کر سکے گی۔اس طرح منتخب ہو کر آنے والی خواتین پی ٹی آئی اور معاشرے کے لئے قابل قدراضافہ ہوں گی۔یہ اہلیت کو شناخت کرنے اور اور شفافیت کو یقینی بنانے کی آسان سی ترکیب ہے جس سے معاشرے پر حقیقی تبدیلی کے نقوش واضح دکھائی دیں گے۔مندرجہ ذیل درجہ بندیوں  کی حامل خواتین کو مخصوص نشستوں پر مساوی طور پر منتخب کیا جا سکتا ہے۔  

 

  1.  اعلیٰ تعلیم اور مہارت رکھنے والی ڈاکڑ خواتین
  2.   ماہر انجینئر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کاوافر تجربہ رکھنے والی خواتین
  3. سائینس اور آرٹ کے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والی خواتین
  4.    لیڈی ہیلتھ وزیٹر، استانی اور نرس خواتین
  5.   یونین کونسل سے قومی سطح تک متحرک سیاسی ورکر خواتین
  6.   پروفیسر، لیکچرر اور سائینسدان خواتین
  7.    زرعی تعلیم اور تجربہ کی حامل خواتین
  8.   شعبہ کھیل میں اعلیٰ درجے کی کھلاڑی خواتین
  9.     شاندار ریکارڈ کی حامل کاروباری خواتین
  10.    خواتین وکلا اور ریٹائرڈ جج خواتین
  11.   دانشور، فنکار، اداکار، پروڈیوسر اور صداکار خواتین

اس میں کوئی کلام نہیں کہ ڈاکڑ یاسمین راشد، عندلیب عباس جیسی  مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی بہترین خواتین کو متعارف کرانے کا سہرا پی ٹی آئی کے سرجاتا ہے۔

تصور کیجئے کہ اگر پی ٹی آئی نےاس طریقہ کار کو اپنایا ہوتا تو آج ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں  بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ اورتجربہ کار خواتین سے مستفید ہو رہے ہوتے۔یقیناً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین ہمارے عوامی نمائندگی کے ادارے کو اپنے ہمہ جہت اور بھر پور تجربے سے روشناس کرا رہی ہوتیں۔ابھی بھی دیر نہیں ہوئی اور آئندہ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی اس نظام  کو متعارف کرا سکتی ہے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کےمعاملے پر بات چیت کرتے ہوئے بالعموم حلقوں میں عام نشستوں پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے طریق کار کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ حلقوں کا انتخاب لڑ کر جیتنے والوں کو جانچنے کے لئے کوئی موثر طریقہ کار بالکل دستیاب نہیں ۔ تاہم میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس بھی  انداز میں ان امیدواروں کو پرکھا جاتا ہے وہ بہت کٹھن مرحلے سے گذارے جاتے ہیں۔اپنے تمام تر اعلیٰ تجربے کے باوجود میں اگر کسی حلقے سے انتخاب لڑوں تو میں یقیناً ہار جاؤں گا۔
 
جنرل نشستوں کے لئےامیدواروں کی اہلیت کی جانچ کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو الیکشن اصلاحات اور ان کے بھرپورعمل درآمد سے بہتر بنایا جا سکتا ہے  مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کے انتخاب  کے طریقہ کار کو بہتر بنانے سے منہ موڑ لیاجائے۔ 

اگر آپ میری تجویز سے متفق ہیں تو براہ کرم اسے مفاد عامہ کے لئے اپنے حلقہ احباب سے شیئر کیجئے۔یہ خیال قومی مفاد میں پیش کیا گیا ہے۔اس سے یہ نتیجہ نہ اخذ کیا جائے کہ اس تجویز سے  موجودہ طریقہ کار سے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کی بے توقیری مقصود ہے۔ بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اہلیت اور قابلیت کو اولیت دی جائے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس پر ماضی میں عمران خان  قومی اسمبلی میں اظہار خیال کر چکے ہیں جس پر اُس وقت ان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ مگر آج ہم ایک نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔

Tags:Imran Khan