زکوۃ اور حکومت خیبر پختونخوا کے انقلابی اقدامات | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Zakaat and KP Govt - Insaf Blog

 

زکوۃ اور حکومت خیبر پختونخوا کے انقلابی اقدامات

ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی (82) مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔ شریعت  میں زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ  صرف ایک  اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد عرب میں ہر طرف فتنے سر اٹھانے لگے جن سے اسلامی ریاست کو نازک ترین صورتِ حال اور بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی سنگینی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج منکرین زکوٰۃ کا تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک لمحے میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال جرآت ایمانی سے اکثر صحابہ کے مشوروں کے علی الرغم اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کیا کہ جو کوئی نماز اور زکوٰۃ میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز روا رکھے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باغیوں کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا اور ان کی تلوار اس وقت تک نیام میں نہ آئی جب تک منکرین زکوٰۃ کی برپا کی ہوئی شورش پوری طرح ختم نا ہوگئی۔

اسلامی حکومت کے فرائض چہار گانہ

قرآن کریم نے اسلامی ریاست کے صاحب اقتدار واختیار کے فرائض منصبی اور وظائف گنواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :

الَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوْا الزّکَوٰةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوَا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاَمُوْرِO

(القرآن، الحج، 22 :  41)

((یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی (اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔

پاکستان میں ہر سال زکوٰۃ کی مد میں اربوں روپے لیے جاتے ہیں اور اس ترمیم کے بعد اب زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا واحد طریقہ حکومت کی طرف سے زکوٰۃ کے نصاب کے اعلان کے بعد بینکوں میں سیونگز اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی رقم سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی رقم کو کاٹا جاتا ہے۔

پاکستان میں زکوٰۃ کا قانون کب رائج ہوا؟

پاکستان میں زکوٰۃ اور عُشر کا قانون سابق فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں سنہ 1980 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں نافذ کیا گیا۔

اس نظام کے تحت کوشش کی گئی کہ فیڈرل زکوٰۃ کونسل اس قانون پر عملدرآمد کی نگرانی کرے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے جبکہ اس کونسل کے دیگر بھی اچھی شہرت کے حامل ہوں۔  اسی طرح صوبائی سطح پر بھی ہائی کورٹ کا جج اس کونسل کی نگرانی کرے جبکہ بالکل بنیادی سطح پر بالغ مسلمان، اساتذہ اور علما ایک مسجد میں بیٹھ کر زکوٰۃ کونسل کے چیئرمین اور دیگر ارکان کو منتخب کریں۔ سنہ 1983 میں جو گزٹ شائع ہوا تھا اس کے مطابق ملک بھر میں 32 ہزار زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ مرکزی سطح پر بنائی گئی کونسل کے اخراجات وفاقی حکومت جبکہ صوبائی سطح پر بنائی گئیں زکوٰۃ کونسل کے اخراجات صوبائی حکومتیں برداشت کرتی تھیں۔

زکوٰۃ کا یہ نظام تقریباٌ30 سال تک ملک میں رائج رہا اور بھر سنہ2010 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کو چلا گیا اور سنہ1980 کا زکوٰۃ کا قانون ختم کردیا گیا۔

اگرچہ زکوٰۃ کی رقم جو بینکوں سے کاٹی جاتی ہے وہ رقم فیڈرل زکوٰۃ کونسل کے اکاؤنٹ میں ہی جاتی ہے تاہم وہاں سے یہ رقم آبادی کے تناسب سے صوبوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد زکوۃ کے معاملات بھی وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیئے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوانے زکوۃ اور عشر ایکٹ کے نام سے 2011 میں باقدہ ایکٹ پاس کیا تاکہ زکوۃ کے معاملات کو صوبائی سطح پر قانون سازی کرکے بہتر کیا جاسکے۔ 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد وقتافوقتا اس ایکٹ مین ترامیم کی گئی تاکہ اس قانون میں موجود نقائص کو دور کرکے زکوۃ کے معاملات کو شفاف اور بہتر کیا جاسکے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں محکمہ زکوۃ میں زکوۃ فنڈز سے مندرجہ ذیل مدوں میں مستحقین زکوۃ کی مدد کی جاتی ہے۔

1۔ گزارہ الاؤنس: گزارہ الاؤنس سے مراد نقد امداد کی ہے جو ہر سال یا ہر چھ ماہ بعد مستحقین زکوۃ میں تقسیم کی جاتی ہیں۔

2۔ جہیز فنڈ: ایسی تمام مستحق بچیاں جنکی شادی کرنا مقصود ہو لیکن پیسے نا ہونے کی وجہ سے انکی شادی ممکن نا ہو کو مالی معاونت فراہم کرنا

3۔ مدارس فنڈ: مدارس میں زیر تعلیم غریب اور مستحق طلباء کو مالی معاونت فراہم کرنا۔

4۔ تعلیمی فنڈ: سکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم غریب اور مستحق  طلباء وطالبات  کو تعلیمی اخراجات کیلئے مالی معاونت فراہم کرنا۔

5۔ صحت فنڈ: اس فنڈ کے ذریعے غریب اور مستحق افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وغیرہ

 

محکمہ زکوۃ ہر سال زکوۃ بجٹ میں زکوۃ کے مختلف مدوں کیلئے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ جو صوبائی زکوۃ کونسل کے اکاؤنٹس سے ضلعی زکوۃ کمیٹی کے اکاؤنٹس میں منتقل کیئے جاتے ہیں جہاں سے مقامی زکوۃ کمیٹیوں کو فنڈز کی منتقلی عمل میں لائی جاتی ہیں۔  محکمہ زکوۃ  کے معاملات کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے اسکے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنا ہوگا۔

صوبائی سطح پر محکمہ زکوۃ میں صوبائی زکوۃ کونسل کا انتخاب کیا جاتا ہے جسکی سربراہی چیئر مین صوبائی زکوۃ کونسل کے چیئرمین کرتے ہیں جبکہ ان کیساتھ 8 اور اراکین بھی ہوتے ہیں ، انکا بنیادی کام صوبائی سطح پر پالیسی سازی کرنا، فنڈز کی تقسیم اور صوبائی حکومت کو زکوۃ کے معاملات کو بہتر کرنے کیلئے سفارشات مرتب کرنا ہوتے ہیں۔

ضلعی سطح پر زکوۃ کی نگرانی، تقسیم  ضلعی زکوۃ کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے جسکی سربراہی ضلعی زکوۃ کمیٹی کے چیئرمین کرتے ہیں جبکہ انکے ساتھ 8 اور ممبرز منتخب ہوتے ہیں جسمیں دوخواتین ممبرز شامل ہوتی ہیں۔ ہر ضلع میں پٹوار موضع کی بنیاد پرمقامی زکوۃ کمیٹیاں  بنائی جاتی ہیں جسکے ممبران کی تعداد بھی 9 ہوتی ہے جسمیں سے 2 خواتین ممبرز اور 7 مرد حضرات ہوتے ہیں۔ ہر مقامی کمیٹی کو آبادی کے تناسب سے مستحقین کی تعداد دی جاتی ہیں ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں کل 4400 کے لگ بھگ مقامی زکوۃ کمیٹیاں ہیں۔

ہر  سال یا ہر چھ ماہ بعد مقامی زکوۃ کمیٹیوں کے ممبران اپنے  علاقے سے مستحقین زکوۃ کی نشاندہی کرکے ان میں سے اپنے کوٹے کے مطابق سب سے زیادہ مستحق افراد کی نشاندہی کرکے انکو چیک کے زریعے رقم کی ادائیگی کرتے تھے۔ اسی طرح جہیزفنڈ، مدارس، تعلیمی فنڈ، علاج فنڈ اور دیگر مدوں میں زکوۃ مستحقین کی مدد کی جاتی تھی۔

ان تمام مستحقین کا ریکارڈ مختلف کتابوں میں درج کیا جاتا تھا جسمیں سب سے زیادہ قابل ذکر  ایل زیڈ19 اور ایل زیڈ 11 کے رجسٹرز ہیں۔ ایل زیڈ 19 کے رجسٹر میں مقامی زکوۃ کمیٹی ممبران کی طرف سے جمع کیئے گئے تمام مستحقین کے کوائف لکھے جاتے ہیں جبکہ ایل زیڈ 11 کے رجسٹر میں کوٹے کے مطابق منتخب شدہ مستحقین جنکو زکوۃ کی مد میں مدد کی جانے ہو کا اندراج کیا جاتا ہے، اسے عمل کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مقامی کمیٹی جس کا نام ہنجہل میں آبادی کے تناسب کے حساب سے 25 مستحقین میں گزارہ الاؤنس کی مد میں پیسے دیئے جانے ہیں۔ ان 25 افراد کی نشاندہی کیلئے مقامی زکوۃ کمیٹی کے  تمام ممبران جنکا اپنے اپنے علاقوں سے مستحق افراد کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں جنکی تعداد 100 بن جاتئ ہیں ۔ ان تمام 100 افراد کا ریکارڈ ایل زیڈ 19 رجسٹر میں کیا جائے گا۔ اسکے مقامی زکوۃ کمیٹی کے ممبران میٹنگ میں باہمی رضامندی سے ان 125 افراد میں سے سب سے زیادہ مستحق 25 افراد کی حتمی لسٹ بنائے گی جنکو گزارہ الاؤنس سے زکوۃ فنڈ فراہم کیا جائے گا۔ ہر سال یہی پریکٹس کی جاتی ہے ۔ چونکہ یہ تمام ریکارڈ مینولی مرتب کیا جاتا ہے  جسکی وجہ سے پچھلے سال کی جانے والی محنت ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ دوسری سب سے اہم بات اس میں یہ ہوتی ہے کہ باقی رہ جانے والے افراد کا صوبائی زکوۃ کونسل کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں ہوتا۔

صوبہ خیبر پختونخوا نے محکمہ زکوۃ کے تمام معاملات کو ڈیجیٹائزڈ کرنے کیلئے اپنی استعداد کار کو بروئے کار لاتے ہوئے زکوۃ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم بنایا ہے  جس سے ناصرف زکوۃ فنڈ کی تقسیم میں شفافیت کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ تمام ریکاڑد 24/7 صوبائی اور وفاقی حکومت کو دستیاب ہوسکے گا، اس سسٹم کے بننے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ بن گیا ہے جسکے پاس بینظیر پاورٹی سروے کی طرز پر ڈیٹا موجود ہوگا۔ جسے مقامی اور بین الاقوامی ڈونرز ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کیا جاسکے گا جسکی بنیاد پر صوبے  میں موجود غریب ترین افراد کیلئے مالی یامادی معاونت حاصل کی جاسکے گی۔ اسکے علاوہ ایسے تمام مخیر حضرات جو اپنے حصے کا زکوۃ مستحقین میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں کو بھی زکوۃ آفسیز سے یہ ڈیٹا میسر ہوسکے گا۔ اس سسٹم کے بننے کے بعد ایسے تمام افراد کی نشاندہی ہوسکے گی جو مختلف حکومتی فنڈز سے رقوم وصول کرتے ہیں ۔

زکوۃ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم  میں مندرجہ ذیل خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔

1۔ گزارہ الاؤنس مستحقین کا ڈیٹا جو مقامی زکوۃ کمیٹیوں کے ذریعے گراؤنڈ سے باقاعدہ زکوۃ سروے فارم کے ذریعے  حاصل کیا جائے گا ۔ اس سروے کی بنیاد غربت معلوم کرنے کی طرز کی رکھی گئی ہے۔ جس سے ناصرف غریب، نادار اور مستحق افراد کا پتہ لگایا جاسکے گا بلکہ علاقے میں موجود معذورں، بیواؤں اور یتیموں کا بھی صرف ایک کلک سے پتہ لگ سکے گا۔ اس سروے اور سسٹم کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا کو صوبے میں موجود ایسی غیرشادی شدہ مستحق بچیوں اور خواتین کا پتہ لگ سکے گا جنکی عمریں شادی کی ہوچکی ہیں لیکن مالی معاونت یا دنگدستی کی وجہ سے انکی شادیاں ابھی نہیں ہوپائی ہیں۔ اسی سروے اور سسٹم کے ذریعے صوبے میں موجود ایسے معذور افراد کی نشاندہی ممکن ہوسکے گی جنکو وہیل چیئرز کی ضرورت ہے یا جنکو سننے والی مشین لگانے کی ضرورت ہے۔  اس سسٹم کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں ڈیٹا انٹر کرنے کے بعد یہ خودکار طریقے سے آپکو ان مستحقین کی نشاندہی کرکے دے گا جنکو گزارہ الاؤنس سے مدد کرنے ہو یعنی اب زکوۃ فنڈ کے استعمال کو سیاسی مقاصد کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکے گا یا زکوۃ فنڈ کے ذریعے اپنوں کو نوازا نہیں جاسکتا ۔

2۔ اس سسٹم میں زکوۃ فنڈ کے ذریعے علاج کی سہولیات فراہم کرنے والے افراد کا ڈیٹا بھی بروقت اور فوری انٹر کیا جاسکے گا ، جس سے فوری طورصوبائی اور ضلعی زکوۃ آفس کو ہسپتالوں میں زکوۃ فنڈ کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکے گی، زکوۃ علاج فنڈ کی معلومات اور ڈیٹا کو محفوظ اور بہتر طریقے سے مرتب کرنے کیلئے ہسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کو بھی اس سسٹم کا حصہ بنایا ہے ۔ تمام سرکاری ہسپتال جہاں زکوۃ فنڈ کے ذریعے علاج کرایا جاسکتا ہے میں زکوۃ فنڈ کی ہسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم تک رسائی دی گئی ہے تاکہ زکوۃ مستحقین کا ڈیٹا فوری اور بروقت انٹر کیاجاسکے اور مستحقین پر زکوۃ فنڈ سے ہونے والے اخراجات کا فوری پتہ چل سکے کہ کتنا فنڈ استعمال ہوا اور ہسپتال کے پاس زکوۃ فنڈ کی مد میں کتنا بقایا ہے۔

3۔    اسی سسٹم سے جہیز فنڈ، مدارس فنڈ، تعلیمی فنڈ کا تمام ریکارڈ موجود اور بروقت میسر ہوسکے گا۔

زکوۃ سروے کرنے کے بعد اسکی زکوۃ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم میں ڈیٹا انٹری کرنے کی ذمہ داری گروپ سیکرٹری کی ہوتی ہے اس سسٹم میں گروپ سیکرٹریز کو موبائیل ایپ  اور ویب بیسڈ سسٹم کے ذریعے ڈیٹا انٹری کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ تاکہ فوری طور پر زکوۃ مستحقین کا ڈیٹا سسٹم میں انٹر کیا جاسکے۔

اسی سسٹم کے ذریعے فوری اور موثر طور مانیٹرنگ اور آڈٹ ٹول شامل کیئے گئے ہیں تاکہ فنڈز کی تقسیم کو شفاف اور منصفانہ بنایا جاسکے۔ اسی سسٹم کے ذریعے محکمہ زکوۃ میں زکوۃ فنڈ کے ملازمین کی تفصیلات کوشامل کرنے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے تاکہ زکوۃ فنڈ کے ملازمین کا تمام ریکارڈ بروقت میسر ہوسکے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں زکوۃ فنڈ کو شفاف اور انصاف پر مبنی تقسیم کیلئے بیش بہا اقدامات اٹھا ئے گئے جس سے ناصرف مستحقین کو انکا حق انکی دہلیز پر فراہم کیا جاسکے گا بلکہ تمام ریکارڈ کا فوری اور بہتر طریقے سے احتساب ممکن ہوسکے گا۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں وزارت سائنس اور انفارمیشن کی زیرنگرانی عوام تک زکوۃ کی مد میں تمام متعلقہ معلومات فراہم کرنے کیلئے خیبر پختونخوا انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ "مستحق" کے نام سے ایک ایپ پر کام کررہی ہے جس سے تقریبا 90  فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ۔ اس ایپ کی مدد سے صوبے کے عوام کو محکمہ زکوۃ سے متعلق تمام معمولات فراہم کی جاسکیں گی، مثلا زکوۃ آفسیز کا پتہ، صوبائی زکوۃ کونسل ، ضلعی زکوۃ کمیٹی  اور مقامی زکوۃ کمیٹی کے تمام متعلقہ افراد کے نام، پتہ اور رابطہ نمبرز شامل ہونگے۔ اسکے علاوہ زکوۃ فنڈ کے حوالے سے مکمل معلومات، کون کونسے ہسپتالوں میں زکوۃ فنڈ سے علاج ممکن ہوسکے گا کی معلومات حاصل ہوسکیں گی۔  ضلعی اور مقامی زکوۃ کمیٹیوں کو کتنے فندز کس کس مد میں فراہم کیئے گئے ہیں کی ساری تفصیل مہیا ہوسکے گی۔ العرض اس ایپ کے ذریعے عوام کو محمکہ زکوۃ سے متعلق تمام درکار معلومات فراہم ہوسکیں گی۔

 

وزیر اعظم عمران خان کے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی طرف صوبہ خیبر پختونخوا کا سفر زور و شور سے جاری ہے۔ محکمہ زکوۃ کی ڈیجیٹائزیشن میں وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان کا کردار انتہائی اہم اور کلیدی رہا ہے۔ انکی ذاتی دلچسپی کی بدولت محکمہ زکوۃ کو اتنا بہترین اور جدید سسٹم میسر ہوا ہے۔ انشاء اللہ آنے والے دنوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں عوام کو مذید اور بہتر سروسز اور سہولیات فراہم ہوسکیں گی۔